باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں

ـــــزلGhazalغــــــــ
شاعر:بیدل حیدری

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں 

کبھی اک لمحہء فرصت جو میسر آ جائے
میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں

رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں

انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ ترا چہرہ بنانے لگ جائیں

ہم لکھاری بھی عجب ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں‌خود ہی مٹانے لگ جائیں

گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدل
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

أحدث أقدم
Post ADS 1
Post ADS 1