ساغر صدیقی شاعری

آؤ بادہ کشوں کی بستی سے

کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں

میں فسانے تلاش کرتا ہوں

آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں

٭٭

انقلابِ حیات کیا کہیے

آدمی ڈھل گئے مشینوں میں

میرے نغموں کا دل نہیں لگتا

ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں

جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں

کیا کرو گے جنوں نشینوں میں

٭

وقت وارث کا صفحۂ قرطاس

ہیر دنیا کا اجنبی قصہ

جھنگ سہتی کے مکر کی نگری

اور کیدو خیال کا حصہ

٭

کوئی تازہ الم نہ دکھلائے

آنے والی خوشی سے ڈرتے ہیں

لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے

لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں

٭

چند غزلوں کے روپ میں ساغر

پیش ہے زندگی کا شیرازہ

٭

ساقیا تیرے بادہ خانے میں

نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں

٭

اس منزلِ حیات سے گزرے ہیں اس طرح

جیسے کوئی غبار کسی کارواں کے ساتھ

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

أحدث أقدم