غــــــزل
شاعر: جگر مراد آبادی
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیء مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے.
جگر مراد آبادی
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیء مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے.
جگر مراد آبادی
إرسال تعليق