بہت پیاری غزل
شاعر: اجمل سلطان پوری
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
ہائے یہ ناز یہ انداز یہ غمزہ یہ غرور
اس نے پائمال کئیے کتنے شہنشاؤں کے تاج
نیم باز آنکھوں میں یہ کیف یہ مستی یہ سرور
پیش کرتے ھیں جسے اہل نظر دل کا خراج
یہ تبسم یہ تکلم یہ سلیقہ یہ شعور
شوخ ، سنجیدہ ، حیا دار، حسین ، سادہ مزاج
آ ترے واسطے تعمیر کروں تاج محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
موگرہ موتیا رابیل چنبیلی چمپا
سوسن و یاسمن و نسترن و سرو و سمن
رات رانی، گل مچکن، گل نسرین ،شہلا
پھول لب ،پھول دہن،پھول زقن،پھول بدن
میری سورج مکھی،گل چاندنی، جوھی،بیلا
ھارسنگھار و گل کچنار وہ گلنار چمن
میری نرگس،میری گل شب و میری پھول کنول
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
شمع ، خورشید ، قمر، برق ، شرر، سیارے
ہے تیرے ہی رخ انوار کی ان سب میں چمک
لعل ۔۔۔۔ یاقوت ، شفق ، پھول ہیں نہ نگارے
ہے تیرے ہی لب و رخسار کی ان سب میں جھلک
وہی اڑتے ہوئے چھینٹے ہیں ہی جگنو سارے
ترے ساغر سے ازل ہی میں گئے تھے جو چھلک
بادہ حسن میرے جام شفق رنگ میں ڈھل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا قیس تو لیلائے شبستان جمال
میں تیرا وامق جاں سوز تو ازرا زمان
خدوخال و رخ و گیسو کی نہیں کوئی مثال
میں شہنشاہ جہانگیر ھوں تو نور جہاں
میری شیریں سخنی میں تیرا فرہاد خیال
شاعر ہندہوں میں اور تو میری اردو زباں
اے میرے گیت کی جان اے میری محبوب غزل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
تو ہے اقبال کی نظموں کا حسیں درس حیات
میر، غالب، ظفر و ذوق کا انداز کلام
جوش کی نظم مسلسل فکری کے قطعات
داغ کی سادہ زبان ،نوح کا طوفان خرام
ترے اوصاف کے پہلو ہیں جگر کے حالات
تو میری جان رباعی ہے میں تیرا خیام
میں تیرا حافظ شیراز تو صاحبہ غزل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
رخ پہ لہرائی ہوئی زلفوں میں ساون کی بہار
جیسے گلزار پہ گنگھور گھٹا چھائی ہو
ان لجائی ہوئی آنکھوں میں جوانی کا خمار
رات بھر جیسے نا مہجور کو نیند آئی ہو
یہ مہکتی ہوئی سانسیں یہ گلابی رخسار
جام میں سرخ پری جیسے اتر آئی ھو
میں کے اک شاعر بدنام ۔۔۔میرا نام اجمل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
ہائے یہ ناز یہ انداز یہ غمزہ یہ غرور
اس نے پائمال کئیے کتنے شہنشاؤں کے تاج
نیم باز آنکھوں میں یہ کیف یہ مستی یہ سرور
پیش کرتے ھیں جسے اہل نظر دل کا خراج
یہ تبسم یہ تکلم یہ سلیقہ یہ شعور
شوخ ، سنجیدہ ، حیا دار، حسین ، سادہ مزاج
آ ترے واسطے تعمیر کروں تاج محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
موگرہ موتیا رابیل چنبیلی چمپا
سوسن و یاسمن و نسترن و سرو و سمن
رات رانی، گل مچکن، گل نسرین ،شہلا
پھول لب ،پھول دہن،پھول زقن،پھول بدن
میری سورج مکھی،گل چاندنی، جوھی،بیلا
ھارسنگھار و گل کچنار وہ گلنار چمن
میری نرگس،میری گل شب و میری پھول کنول
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
شمع ، خورشید ، قمر، برق ، شرر، سیارے
ہے تیرے ہی رخ انوار کی ان سب میں چمک
لعل ۔۔۔۔ یاقوت ، شفق ، پھول ہیں نہ نگارے
ہے تیرے ہی لب و رخسار کی ان سب میں جھلک
وہی اڑتے ہوئے چھینٹے ہیں ہی جگنو سارے
ترے ساغر سے ازل ہی میں گئے تھے جو چھلک
بادہ حسن میرے جام شفق رنگ میں ڈھل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا قیس تو لیلائے شبستان جمال
میں تیرا وامق جاں سوز تو ازرا زمان
خدوخال و رخ و گیسو کی نہیں کوئی مثال
میں شہنشاہ جہانگیر ھوں تو نور جہاں
میری شیریں سخنی میں تیرا فرہاد خیال
شاعر ہندہوں میں اور تو میری اردو زباں
اے میرے گیت کی جان اے میری محبوب غزل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
تو ہے اقبال کی نظموں کا حسیں درس حیات
میر، غالب، ظفر و ذوق کا انداز کلام
جوش کی نظم مسلسل فکری کے قطعات
داغ کی سادہ زبان ،نوح کا طوفان خرام
ترے اوصاف کے پہلو ہیں جگر کے حالات
تو میری جان رباعی ہے میں تیرا خیام
میں تیرا حافظ شیراز تو صاحبہ غزل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
رخ پہ لہرائی ہوئی زلفوں میں ساون کی بہار
جیسے گلزار پہ گنگھور گھٹا چھائی ہو
ان لجائی ہوئی آنکھوں میں جوانی کا خمار
رات بھر جیسے نا مہجور کو نیند آئی ہو
یہ مہکتی ہوئی سانسیں یہ گلابی رخسار
جام میں سرخ پری جیسے اتر آئی ھو
میں کے اک شاعر بدنام ۔۔۔میرا نام اجمل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
میں تیرا شاہ جہاں تو میری ممتاز محل
آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں
إرسال تعليق