بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

Ghazal , غزل
شاعر: جون ایلیا
Joan Alia

بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی

دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا
دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی

جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں
جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی

ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں
عزت شائقین غم تھی جو رہی سہی گئی

بود و نبود کی تمیز، ایک عذاب تھی کہ تھی
یعنی تمام زندگی، دھند میں ڈوبتی گئی

اس کے جمال کا تھا دن، میرا وجود اور پھر
صبح سے دھوپ بھی گئی، رات سے چاندنی گئی

جب میں تھا شہر ذات کا تھا میرا ہر نفس عذاب
پھر میں وہاں کا تھا جہاں حالت ذات بھی گئی

گرد فشاں ہوں دشت میں سینہ زناں ہوں شہر میں
تھی جو صبائے سمت دل، جانے کہاں چلی گئی

تم نے بہت شراب پی اس کا سبھی کو دکھ ہے جون
اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے تم کو شراب پی گئی۔۔

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

Previous Post Next Post