بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

 

بہت ہی خوبصورت نعتیہ کلام

شاعر: بیدم شاہ وارثی

 

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​

اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​

جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​

تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​

محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​

ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​

تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​

اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​

وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​

درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​

چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ


 

کردیا آپ ﷺنے دنیا سے جو بیگانہ مجھے

ہدیۂ عقیدت بہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
شاعـــــــــــــر:محمد اختر رحمانی

کردیا آپ ﷺنے دنیا سے جو بیگانہ مجھے
لوگ کہنے لگے اب آپ ﷺ کا دیوانہ مجھے

آپ ﷺ کی یاد میں آنکھوں سے چھلکتا ہی رہے
 فیضِ سرکار  ﷺ نے بخشا ہے جو پیمانہ مجھے

عشقِ صادق کی جھلک جس میں ہو ظاہر تادم
ملےاے آقا ﷺ وہ پوشاکِ فقیرانہ مجھے

آپﷺ کی یاد میں اس دل کی عجب حالت ہے
صحنِ  گلشن بھی نظر آتا ہے ویرانہ مجھے

جو بھی چاہے وہ سمجھتی رہے دنیا مجھ کو
راس آیا ہے بہت حالِ فقیرانہ  مجھے

حوضِ کوثر پہ مری اک یہی خواہش ہوگی
آپﷺ کے ہاتھوں ملےکاش کہ پیمانہ مجھے

اےخدا ! جذبۂ صادق وہ عطا کر مجھ کو
شمعِ عالم ﷺ کا بنادے کوئی پروانہ مجھے

جب بھی تو چاہے،  چلی جائےمدینےان ﷺ کے
اے صبا! تو کبھی لے چل درِ جانانہ مجھے

اے خدا ! شمعِ رسالت ﷺ پہ جو مٹ جاتا ہے
عشق میں کردے وہ سرکار ﷺ کا پروانہ مجھے

آپﷺ کے نام پہ مٹ جائےجو بے خوف و خطر
اپنے پیارے کا بنا دے تو وہ دیوانہ مجھے

جہاں اختر وہﷺ پلاتے ہیں محبت کی شراب
بھول سکتا نہیں آقاﷺ کا وہ میخانہ مجھے
 

 

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

نعت رسولِ مقبول

نعت خواں: پیر سید نصیر الدین نصیر
شاہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب

 

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

 

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

 

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

 

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

 

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

 

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

 

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت

میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

 

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے

اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

 

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت

بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

 

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی

جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

 

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی

جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

 

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر

جیسا ہے "نصیر" آخر سائل تو پرانا ہے

 

نہ ہو کیوں کر افضل ہمارا محمدﷺ

نہ ہو کیوں کر افضل ہمارا محمدﷺ
نعتیہ کلام

نہ ہو کیوں کر افضل ہمارا محمدﷺ
کہ ہے اپنے پیارے کا پیارا محمدﷺ

الہی یہ محشر میں ہم کہتے جائیں
کہاں ہے کہاں ہے ہمارا محمدﷺ

وہیں کشتیِ نوح بھی ڈوب جاتی
نہ دیتے جو اس کو سہارا محمدﷺ

ابھی فرش سے عرش مل جائے جُھک کر
کریں گر طلب کا اشارا محمدﷺ

یہی بات عاشق نے معشُوق سے کی
نہیں تیری فرقت گوارا محمدﷺ

کہیں گے یہی اس شہِ انبیا سے
وہاں ہوں گے جب آشکارا محمدﷺ

شفیعِ امم روزِ محشر تمھیں ہو
ہمیں ہے تمھارا سہارا محمدﷺ

صدا خیر مقدم کی کعبے سے آئی
حرم سے جب آئے دوبارا محمدﷺ

بلا لو مدینے میں پھر داغؔ کو تم
نہیں ہِند میں اب گزارا محمدﷺ

داغؔ دہلوی

خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گُلِ چیدہ

بہت ہی مشہور زمانہ کلام

خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گُلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ

سیرت ہےتیری جوہرِ آیئنہ تہذیب
روشن تیرے جلووں سے جہانِ دل و دیدہ

ہے طالب ِ الطاف میرا حالِ پریشاں
محتاجِ توجہ ہے میرا رنگ ِ پریدہ

مضمر تیری تقلید میں ہے عالم کی بھلائی
میرا یہی ایماں ہے ، یہی میرا عقیدہ

تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ

خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں تیرے در پہ بہ دامانِ دریدہ

تُو روحِ زمن، رنگِ چمن، ابرِ بہاراں
تُو حسنِ سُخن ، شانِ ادب، جانِ قصیدہ

اے رحمتِ عالم ﷺ تیری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے میرا قلبِ تپیدہ

اے ہادی ِ بر حقﷺ تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے تیرے لب سے شنیدہ

یوں دور ہوں تائب میں حریمِ نبوی ﷺسے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخِ بریدہ

حفیظ تائب رحمتہ اللہ علیہ

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ

  نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ

ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا

اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دل شیدا ہے ہمارا

خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

اس نے لقب خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدر کرار کہ مولےٰ ہے ہمارا

اے مدعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا

ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا

ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا


وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
بہت ہی پیارا کلام
شاعر:صوفی تبسّم

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام، اللہ اللہ

یہ رُوئے درخشاں، یہ زلفوں کے سائے
یہ ہنگامۂ صبح و شام، اللہ اللہ

یہ جلووں کی تابانیوں کا تسلسل
یہ ذوقِ نظر کا دوام، اللہ اللہ

وہ سہما ہوا آنسوؤں کا تلاطُم
وہ آبِ رواں بے خرام، اللہ اللہ

شبِ وصل کی ساعتیں مختصر سی
تمناؤں کا اژدحام، اللہ اللہ

وہ ضبطِ سُخن میں لبوں کی خموشی
نظر کا وہ لطفِ کلام اللہ اللہ

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
معراج وارثی کا لکھا بہت پیارا کلام


یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوۃ اللہ علیک

آپ کی ذات مکرم باعث تخلیق عالم
آپ پر فخر آدم ہو سلام پاک پیہم

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


صبح صادق کا وہ منظر اور وہ میلاد پیمبرؐ
بلبل سدرہ کے لب پر تھا یہ نغمہ روح پرور

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


رخ بہار صبح قدرت زلف شب گوں شام جنت
دل سراسر راز وحدت آئینہ دار حقیقت

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


اول و آخر تمہیں ہو باطن و ظاہر تمہیں ہو
حاضر و ناظر تمہیں ہو دین کے ناصر تمہیں ہو

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


بارش لطف و کرم خندہ زن ہر اہل غم ہے
آمد شاہ امم ہے اب جو کچھ مل جائے کم ہے

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


ہر طرف جلوے نمایاں ہر طرف شمعیں فروزاں
عرش سے تابزم امکاں ہے چراغاں ہی چراغاں

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


سلسبیل و حوض کوثر خلد کا ہر ایک گل تر
عرش و کرسی ماہ و اختر سب کے سب تم پر نچھاور

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


ہر سحر خورشید خاور اور ہر شب ماہ و اختر
سوئے روضہ سر جھکا کر عرض کرتے ہیں برابر

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


کاش جاگ اٹھے مقدر کاش ہو وہ دن میسر
سر جھکا کر آستاں پر یوں کہوں با دیدۂ تر

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


با خلوص و با عقیدت سب ہیں حاضر پیش خدمت
ہو قبول اے شاہ امت ہدیۂ اہل محبت

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک


اب تو رحمت کی نظر ہو اب تو قسمت کو بنا دو
اپنے معراجؔ حزیں کو اب تو روضے پر بلا لو

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
یا حبیب سلام علیک صلوۃ اللہ علیک

کلام "الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ"

کلام "الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ"
کلام
الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا

آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو تِرے در سے پُر ارمان گیا

دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا

اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

اور تم پر مِرے آقاﷺ کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے اُن کی پناہ ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصب آخر
بِھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا ، سارا تو سامان گی

کلام پیرنصیرالدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ"ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا"

کلام پیرنصیرالدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ"ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا"
ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانہ دل کا

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا

کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا

وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تحاشہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا

دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا

ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے
اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا

میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانہ دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
“ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “

خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے
زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا

بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا

نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا

حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے
لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانہ دل کا

لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی
اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا

ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا

پیر نصیر الدین نصیررحمۃ اللہ علیہ