اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

نعت رسولِ مقبول

نعت خواں: پیر سید نصیر الدین نصیر
شاہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب

 

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

 

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے

زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

 

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں

جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

 

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر

ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

 

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن

ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

 

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں

کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

 

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت

میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

 

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے

اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

 

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت

بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

 

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی

جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

 

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی

جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

 

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر

جیسا ہے "نصیر" آخر سائل تو پرانا ہے

 

جو بھی غنچہ تیرے ھونٹوں پہ کِھلا کرتا ھے

 بہت ہی پیاری

غـــــــــــــــــــــــــزل

شاعر: قتیل شفائی


جو بھی غنچہ تیرے ھونٹوں پہ کِھلا کرتا ھے

وہ تیری تنگئ داماں کا گِلا کرتا ھے

 

دیر سے آج میرا سر ھے تیرے زانو پر

یہ وہ رتبہ ھے جو شاھوں کو ملا کرتا ھے

 

میں تو بیٹھا ھُوں دبائے ھُوئے طوفانوں کو

تُو میرے دل کے دھڑکنے کا گلا کرتا ھے

 

رات یوں چاند کو دیکھا ھے ندی میں رقصاں

جیسے جُھومر تیرے ماتھے پہ ھِلا کرتا ھے

 

جب میری سیج پہ ھوتا ھے بہاروں کا نزول

صرف ایک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ھے

 

کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا

جو بھی کرتا ھے محبت سے گلہ کرتا ھے

 

لوگ کہتے ھیں جسے نیل کنول ، وہ تو قتیلؔ

شب کو اُن جھیل سی آنکھوں میں کِھلا کرتا ھے

 

ظلم سہتے ہوا انسان برا لگتا ہے

غــــــــــــــزل

شاعر: منظر بھوپالی


سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان برا لگتا ہے

ظلم   سہتے   ہوا    انسان  برا  لگتا  ہے

 

ہم مجاہد ہیں، پر ایمان کی کمزوری سے

اب  ہمیں  جنگ  کا  میدان  برا  لگتا ہے

 

اس  قدر  ہوگئی مصروف یہ دنیا اپنی

 ایک  دن ٹھہرے  تو  مہمان برا لگتا ہے

 

ان کی خدمت تو بڑی بات، بہو بیٹوں کو

بوڑھے  ماں  باپ  کا  فرمان  برا  لگتا  ہے

 

میرے الله میری نسلوں کو ذلت سے نکال

ہاتھ    پھیلائے    مسلمان   برا    لگتا   ہے


یوں اکیلامجھے سب چھوڑ گئےہیں گویا...!


غــــــــــــــزل

شاعر:لیاقت علی عاصم


جسم پرطوق نہ زنجیرکی گنجائش ہے!

ہاں مگرسینےمیں اک تیرکی گنجائش ہے!

 

دیکھتے ہی تجھے چپ ہو گئی ساری محفل!

اب بھی ظالم کسی تقریرکی گنجائش ہے...؟

 

ہےتوبھرپوربہت تیری نمائش گہِ کُن...

اس میں لیکن تری تصویرکی گنجائش ہے!

 

قتل گاہیں ہیں بہت دارورسن ایک نہیں!!

مان لو، شہر میں تعمیرکی گنجائش ہے!

 

یوں اکیلامجھے سب چھوڑ گئےہیں گویا...!

دشت میں ایک ہی رہ گیرکی گنجائش ہے!

 

بس یہی سوچ کےاوروں کی طرح میں لکھّا!

اس زمیں میں ابھی جاگیر کی گنجائش ہے...!

 

ویسےاظہاروبیاں میں ہے مکمل 'عاصم'!

آپ کےشعرمیں تاثیرکی گنجائش ہے!!

 

محبت کر نہیں سکتا

"محبت کر نہیں سکتا"

بہت ہی پیاری غــــــــــــــــــزل

شاعر:علی سرمد

 

ارادہ روز کرتا ہوں ، مگر کچھ کر نہیں سکتا

میں پیشہ ور فریبی ہوں ، محبت کر نہیں سکتا

 

بُرے ہو یا کہ اچھے ہو ، مجھے اِس سے نہیں مطلب

مجھے مطلب سے مطلب ہے ، میں تم سے لڑ نہیں سکتا

 

یہاں ہر دوسرا انساں خُدا خود کو کہاتا ہے

خُدا بھی وہ کہ جو اپنی ہی جھولی بھر نہیں سکتا

 

میں تم سے صاف کہتا ہوں ! مجھے تم سے نہیں اُلفت

فقط لفظی محبت ہے میں تم پہ مر نہیں سکتا

 

تمہاری بات سُن لی ہے، بہت دُکھ کی کہانی ہے

سنو تم بعد میں آنا ! ابھی کچھ کر نہیں سکتا

 

محبت کی مسافت نے بہت زخمی کیا مجھ کو

ابھی یہ زخم بھرنے ہیں، میں آہیں بھر نہیں سکتا

 

صنم تیری محبت نے مجھے نفرت سکھائی ہے

مگر اب اجنبی ہو تم، میں نفرت کر نہیں سکتا

 

بھلے میں نے نہیں چاہا، مگر تم نے تو چاہا ہے

تمہاری یاد کو دل سے تو باہر کر نہیں سکتا

 

نجانے آدمی کیوں آدمی سے خوف کھاتا ہے

جو اپنے رب سے ڈرتا ہو کسی سے ڈر نہیں سکتا

 

ارے او عشق ! چل جا کام کر کس کو بلاتا ہے ؟

حُسن بازار میں بِکتا ہے سُولی چڑ ھ نہیں سکتا

 

یہاں ہر ایک چہرے پر الگ تحریر لکھی ہے

مری آنکھوں میں آنسو ہیں ابھی کچھ پڑھ نہیں سکتا

 

میں اپنی رات کی زُلفوں میں خود چاندی سجاتا ہوں

میں اس کی مانگ میں وعدوں کے ہیرے جڑ نہیں سکتا

 

بھلے جھوٹا، منافق ہوں، بہت دھوکے دیے لیکن

مرا کچھ وقت باقی ہے، زمیں میں گڑ نہیں سکتا

 

میں اُس گھر کا مقیمی ہوں جسے اوقات کہتے ہیں

میں اپنی حد میں رہتا ہوں سو آگے بڑھ نہیں سکتا

 

خُدا ہوں نہ ولی ہوں میں ، فقط رندِ علیؔ ہوں میں

میں کچھ بھی دے نہیں سکتا، میں کچھ بھی کر نہیں سکتا

 

علیؔ کچھ شعر رہتے ہیں مگر لکھنے نہیں ہر گز

کسی کی لاج رکھنی ہے، سو ظاہر کر نہیں سکتا