تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا ، نہیں آئے گا نہیں آئے گا

بیدل حیدری کی بہت ہی پیاری
غـــــــــــــــــــــــزل

مری داستانِ الم تو سُن ، کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
مرا مدعا نہیں آئے گا ، ترا تذکرہ نہیں آئے گا

مری زندگی کے النگ میں ، کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تری واپسی بھی ہوئی اگر ، تجھے راستہ نہیں آئے گا

اگر آئے دِن تری راہ میں ، تری کھوج میں تری چاہ میں
یونہی قافلے جو لُٹا کیے ، کوئی قافلہ نہیں آئے گا

مری عمر بھر کی برہنگی ، مجھے چھوڑ دے مرے حال پر
یہ جو عکس ہے مرا ہم سفر ، مجھے اوڑھنا نہیں آئے گا

اگر آئے دشت میں جھیل تو ، ذرا احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگِ خشک ہوں دوستو ، مجھے ڈوبنا نہیں آئے گا

کہیں انتہا کی ملامتیں ، کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
ترے شہر میں مرے بعد اب ، کوئی سَر پھرا نہیں آئے گا

کوئی انتظار کا فائدہ ، مرے یار بیدلؔ غم زدہ
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا ، نہیں آئے گا نہیں آئے گا

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

Previous Post Next Post
Post ADS 1
Post ADS 1