ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

 

ــــــزلGhazalغـــــــ

شاعــــــــــر: کیف بھوپالی

 

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

 

ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے

وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے

 

خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا

کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے

 

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

 

کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے

ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے

 

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

 

ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصۂ غم

ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے

 

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے


 

 

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے

 

ـــــــــــزلGhazalغـــــــــــــــــ

شاعر: ڈاکٹر علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ

 

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

 

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اڑنے چگنے میں دن گزارا

 

پہنچوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

 

سنکر بلبل کی آہ و زاری

جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

 

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

 

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کرونگا

 

اللہ نے دی ہے جو مجھکو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنا یا

 

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے


 

ڈاکٹر علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ

ـــــــــــزلGhazalغـــــــــــــــــ

شاعر: ڈاکٹر علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ

 

متاع بے بہا ہے سوزودرد و آرزو مندی

مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

 

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

 

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں

کہ شاہیں کیلئے ذلت ہے کار آشیاں بندی

 

وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

 

میری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو

کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی


 

جو بھی غنچہ تیرے ھونٹوں پہ کِھلا کرتا ھے

 بہت ہی پیاری

غـــــــــــــــــــــــــزل

شاعر: قتیل شفائی


جو بھی غنچہ تیرے ھونٹوں پہ کِھلا کرتا ھے

وہ تیری تنگئ داماں کا گِلا کرتا ھے

 

دیر سے آج میرا سر ھے تیرے زانو پر

یہ وہ رتبہ ھے جو شاھوں کو ملا کرتا ھے

 

میں تو بیٹھا ھُوں دبائے ھُوئے طوفانوں کو

تُو میرے دل کے دھڑکنے کا گلا کرتا ھے

 

رات یوں چاند کو دیکھا ھے ندی میں رقصاں

جیسے جُھومر تیرے ماتھے پہ ھِلا کرتا ھے

 

جب میری سیج پہ ھوتا ھے بہاروں کا نزول

صرف ایک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ھے

 

کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا

جو بھی کرتا ھے محبت سے گلہ کرتا ھے

 

لوگ کہتے ھیں جسے نیل کنول ، وہ تو قتیلؔ

شب کو اُن جھیل سی آنکھوں میں کِھلا کرتا ھے

 

ظلم سہتے ہوا انسان برا لگتا ہے

غــــــــــــــزل

شاعر: منظر بھوپالی


سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان برا لگتا ہے

ظلم   سہتے   ہوا    انسان  برا  لگتا  ہے

 

ہم مجاہد ہیں، پر ایمان کی کمزوری سے

اب  ہمیں  جنگ  کا  میدان  برا  لگتا ہے

 

اس  قدر  ہوگئی مصروف یہ دنیا اپنی

 ایک  دن ٹھہرے  تو  مہمان برا لگتا ہے

 

ان کی خدمت تو بڑی بات، بہو بیٹوں کو

بوڑھے  ماں  باپ  کا  فرمان  برا  لگتا  ہے

 

میرے الله میری نسلوں کو ذلت سے نکال

ہاتھ    پھیلائے    مسلمان   برا    لگتا   ہے