ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں

غـــــــــــــــزل
شاعر: قمرجیالوی

بنتا نہیں ہے حسن ستمگر شباب میں
ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں

جلوے ہوئے نہ جذب رخِ بے نقاب میں
کرنیں سمٹ کے آ نہ سکیں آفتاب میں

بچپن میں یہ سوال قیامت کب آئے گی
بندہ نواز آپ کے عہدِ شباب میں

صیاد آج میرے نشیمن کی خیر ہو
بجلی قفس پہ ٹوٹتی دیکھی ہے خواب میں

آغازِ شوق دید میں اتنی خطا ہوئی
انجام پر نگاہ نہ کی اضطراب میں

اب چھپ رہے ہو سامنے آ کر خبر بھی ہے
تصویر کھنچ گئی نگہِ انتخاب میں

کشتی کسی غریب کی ڈوبی ضرور ہے
آنسو دکھائے دیتا ہے چشمِ حباب میں

محشر میں ایک اشکِ ندامت نے دھو دیئے
جتنے گناہ تھے مری فردِ حساب میں

اس وقت تک رہے گی قیامت رکی ہوئی
جب تک رہے گا آپ کا چہرہ نقاب میں

ایسے میں وہ ہوں، باغ ہو، ساقی ہو اے قمر
لگ جائیں چار چاند شبِ ماہتاب میں

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

Previous Post Next Post