بہت ہی پیاری غزل
شاعرہ: زہرانگاہ
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
حالانکہ دیریں اثنا ، کیا کچھ نہیں دیکھا ھے
پر لکھے تو کیا لکھے؟ اور سوچے تو کیا سوچے؟
کچھ فکر بھی مبہم ھے ، کچھ ھاتھ لرزتا ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
دیوانی نہیں اتنی ، جو منہ میں ھو بک جائے
چپ شاہ کا روزہ بھی ، یوں ھی نہیں رکھا ھے
بُوڑھی بھی نہیں اتنی اِس طرح وہ تھک جائے
اب جان کے اُس نے ، یہ انداز بنایا ھے
ھر چیز بھلاوے کے صندوق میں رکھ دی ھے
آسانی سے جینے کا اچھا یہ طریقہ ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
گھر بار سمجھتی تھی، قلعہ ھے حفاظت کا
دیکھا کہ گرھستی بھی ، مٹی کا کھلونا ھے
مٹی ھو کہ پتھر ھو ، ھیرا ھو ، کہ موتی ھو
گھر بار کے مالک کا ، گھر بار پہ قبضہ ھے
احساسِ حکومت کے ، اِظہار کا کیا کہنا
انعام ھے مذھب کا جو ھاتھ میں کوڑا ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
دیوار پہ ٹانگا تھا ، فرمان رفاقت کا
کیا وقت کے دریا نے ، دیوار کو ڈھایا ھے
فرمانِ رفاقت کی ، تقدیس بس اتنی ھے
اِک جنبشِ لب پر ھے، رشتہ جو ازل کا ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
دو بیٹوں کو کیا پالا ، ناداں یہ سمجھتی تھی
اس دولتِ دنیا کی ، مالک وھی تنہا ھے
پر وقت نے آئینہ ، کچھ ایسا دکھایا ھے
تصویر کا یہ پہلو ، اب سامنے آیا ھے
بڑھتے ھوئے بچوں پر ، کھلتی ھُوئی دنیا ھے
کھلتی ھُوئی دنیا کا ، ھر باب تماشہ ھے
ماں باپ کی صُورت تو ، دیکھا ھُوا نقشہ ھے
دیکھے ھُوئے نقشے کا ، ھر رنگ پرانا ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
سوچا تھا بہن بھائی ، دریا ھیں محبت کے
دیکھا کہ کبھی دریا ، رستہ بھی بدلتا ھے
بھائی بھی گرفتار مجبوریٔ خدمت ھیں
بہنوں پہ بھی طاری ھے ، قسمت کا جو لکھا ھے
اک ماں ھے جو پیڑوں سے ، باتیں کیے جاتی ھے
کہنے کو ھیں دس بچے ، اور پھر بھی وہ تنہا ھے
زھراؔ نے بہت دن سے ، کچھ بھی نہیں لکھا ھے
حالانکہ دیریں اثنا ، کیا کچھ نہیں دیکھا ھے ؟؟
Post a Comment